تازہ ترین

Post Top Ad

Adstera 2

Tuesday, 14 January 2020

وفاقی حکومت اپنے اتحادیوں کے مطالبات کے دباؤ میں

 اسلام آباد: ماضی کی منتخب جمہوری حکومتوں کی طرح پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بھی اقتدار میں آنے کے بعد سے اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے اسے ملک کے سیای نظام کی بدقسمتی کہیں یا کچھ اور مگر یہ تلخ حقیقت ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک ملک میں جتنی بھی جمہوری حکومتیں قائم ہوئی ہیں انہیں ہنی مون پیریڈ کم ہی نصیب ہوا ہے۔

روز اول سے ہی جہاں ورثے میں ملنے والے معاشی و مالی مسائل  کا سامنا رہا ہے وہیں داخلی و خارجی سطح پر  بے شمار چیلنجز کا سامنا رہا ہے اور جیسے ہی کچھ کمر سیدھی ہونے لگتی ہے تومحلاتی سازشوں وسیاسی جوڑ توڑ اور عدم استحکام سمیت بے شمار مسائل سامنے آن کھڑے ہوتے ہیں کہ حکومتوں کیلئے اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہوجاتا ہے اور ساری توانائیاں اپنی بقاء پر خرچ کردیتی ہیں اور شائد ہی کوئی منتخب حکومت ایسی گزری ہو جس کے منتخب وزیراعظم کو اپنی مدت پوری کرنا نصیب ہوئی ہو اور اگر کسی حکومت نے اپنی معیاد پوری بھی کی ہے تو کپتان ضرور تبدیل کرنا پڑا ہے اور یہ اب روایت سی بنتی جا رہی ہے۔

پی ٹی آئی کی حکومت کو بھی کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے جب سے اقتدار میں آئی ہے ایک جانب معاشی و مالی مسائل ہیں تو دوسری جانب اپنی بقاء کی فکر ہے اور اسی کشمکش میں ڈیڑھ سال کا عرصہ گزرنے کے بعد حکومت کی اہم اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی کی کابینہ سے علیحدگی اور اسکے بعد مقتدر قوتوں کے اشاروں پر وجود میں آنے والی جماعتوں اور مختلف سیاسی جماعتوں کے ملاپ سے جنم لنے والے سیاسی اتحادوں کے رہنماوں کے سامنے آنے والے حالیہ بیانات سے وفاقی دارالحکومت ایک بار پھر افواہوں کی زد میں ہے۔

بعض حلقوں کا خیال ہے کہ معاملات تیزی سے قومی حکومت کی جانب بڑھ رہے ہیں اور فروری میں تبدیلی کی باتیں ہو رہی ہیں تو کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ ان ہاوس تبدیلی ہونے جا رہی ہے تو بعض نئے انتخابات کی باتیں کر رہے ہیں یہ تو خیر جتنے منہ اتنی باتیں ہیں یہ تو وقت بتائے گا کہ آگے کیا ہونے جا رہا ہے مگر اتنا ضرور ہے کہ وزیراعظم عمران خان کیلئے مشکلات بڑھ رہی ہیں۔

جہاں تک تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کا سوال ہے تو شائد اس کا ابھی وقت نہیں آیا ہے البتہ حکومتی حلقوں میں پائی جانیوالی بے چینی اس بات کا پتہ ضرور دیتی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت ڈول ضرور رہی ہے اور رخ بدلتی ہوائیں آندھی کی صورت حکومت کو لپیٹ میں لے رہی ہیں کیونکہ جس تیزی سے انکے اتحادیوں کا بیانیہ بدل رہا ہے اس سے لگ یہی رہا ہے کہ چیئرمین نیب کے ہواوں کا رخ بدلنے کے بیان، پھر مولانا فضل الرحمن کے ملین مارچ کے بعد اسلام آباد میں دیئے جانیوالے دھرنے کے بعد اٹھنے والی تبدیلی کی آوازیں گہری  ہی ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے ایم کیو ایم کو تحریک انصاف کی حکومت گرانے میں  ساتھ دینے کیلئے وفاق کے ساتھ ساتھ سندھ حکومت میں بھی وزارتوں کی پیشکش کے بعد سے سیاسی پنڈتوں کی جانب سے مستقبل کے سیاسی منظر نامے کے بارے میں شروع ہونے والا پیشنگیوئیوں کا سلسلہ اب زور پکڑ گیا ہے۔

ایم کیو ایم کے بعد بڑے سیاسی الائنس گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی طرف سے بھی حکومت کے حق میں کوئی اچھی اطلاعات نہیں آرہی ہیں ،ادھر حکومت کی ایک اور اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی بھی کورکمیٹی کے اجلاس میں حکومت کے ساتھ اتحاد برقرار رکھنے یا علیحدگی اختیار کرنے کا فیصلہ کرنے جا رہی ہے اور ان سطور کی اشاعت تک بلوچستان نیشنل پارٹی کی کور کمیٹی کا فیصلہ بھی منظر عام پر آجائے گا اور اطلاعات یہ بھی ہیں کہ خود تحریک انصاف کے اندر بھی ناراض اراکین کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کو ہے اور کسی بھی وقت یہ ناراض اراکین کا گروپ چپ کا روزہ توڑنے کو ہے اور لگ یہی رہا ہے کہ آنے والے وقت میں عمران خان کیلئے مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا اور شائد اس کا ادراک حکمران جماعت تحریک انصاف کو بھی ہو چکا ہے اسی لئے ایم کیو ایم کو راضی کرکے حکومتی بند کو شگاف سے بچانا چاہتی ہے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ اگر یہ شگاف پڑا تو پھر دوسرے اتحادیوں کیلئے بھی راستہ کھل جائے گا اور پھر بند باندھنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہوجائے گا۔

یہی وجہ ہے کہ کپتان کی ٹیم کے اہم کھلاڑی اسد عمر کی کی جانب سے ناراض ایم کیو ایم کو منانے میں ناکامی کے بعد اب عمران خان خود میدان میں اترے ہیں اور وزیراعظم عمران خان نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی سے رابطہ کر کے ملاقات کے لیے اسلام آباد بلا لیا ہے جبکہ ٹیلی فون پر بھی انہیںیقین دہانی کروائی ہے کہ ایم کیو ایم کے تمام جائز مطالبات پورے ہوں گے اور تمام تحفظات دور کریں گے۔ جہانگیر ترین نے بھی خالد مقبول صدیقی سے رابطہ کیا ہے ان سطور کی اشاعت تک اس بارے بھی پیشرفت متوقع ہے اور اگر تحریک انصاف نے حکومت قائم رکھنا ہے تواس کی کوشش ہوگی کہ ایم کیو ایم کو کسی بھی طور منایا جائے۔

کیونکہ قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کے ارکان کی تعداد 7 ہے جبکہ سینیٹ میں 5 ممبر ہیں۔ ایم کیو ایم کے پاس وفاقی کابینہ میں 2 وزراتیں ہیں جن میں خالد مقبول صدیقی وزرات انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سینیٹر فروغ نسیم وفاقی وزیر قانون ہیں، اگر حکومت اپنی اتحادی جماعتوں میں  کسی ایک کی بھی حمایت کھو دیتی ہے تو اس کے بعد یقینی طور پر عمران خان اپنی حکومت کو قائم رکھنے کے لیئے سادہ اکثریت کھو بیٹھیں گے اور متوقع طور پر تحریکِ عدمِ اعتماد کے نتیجے میں واپس اپنے کنٹینر پر موجود ہوں گے جو ان کا پندرہ ماہ سے پہلے سے ہی منتظر ہے اور پھر آج کے حالات یہ بھی درست ثابت کر رہے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان نے کبھی بھی کچی زمین پر پاوں نہیں رکھے، ان کی ہر بات اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔

انہوں نے دھرنے سے واپسی پر چوہدری پرویز الہی سے ملاقات کے بعد یہی کہا تھا کہ میں خالی ہاتھ نہیں لوٹ رہا، بہت کچھ امانت ہوتا ہے جو قبل از وقت بتایا نہیں جا سکتا ہے، انہوں نے تو اگرچہ اپنی زبان سے ابھی بھی کچھ نہیں بتایا مگر حالات سب کو بتا رہے ہیں اور پھر مریم نواز کے بارے بھی یہی اطلاعات سننے میں آرہی ہیں کہ آئندہ چند دنوں میں مریم نواز بھرپور انداز میں منظرِ عام پر آ نے والی ہیں، شہباز شریف کی واپسی ہو گی اور وہ قومی اسمبلی میں تحریکِ عدمِ اعتماد کے نتیجے میں ملک کے نئے وزیرِ اعظم ہوں گے اور پھر کچھ ہفتوں میں نئے الیکشن کا اعلان کیا جائے گا، اب یہ کس حد تک درست ثابت ہوگا یہ تو اگلے چندماہ میں معلوم ہوجائیگا۔

لیکن اتنا ضرور ہے کہ سیاسی کچھڑی پک ضرور رہی ہے کیونکہ سابق افغان صدر حامد کرزئی کی لندن میں میاں برادران سے  ہونیوالی ملاقات کو بھی بہت اہمیت دی جا رہی ہے اور ادھر آرمی ایکٹ میں ترمیم کا معاملہ حل ہونے کے باوجود ابھی تک نئے نوٹیفکیشن کے جاری نہ ہونے پر مختلف سازشی تھیوریاں گردش کر رہی ہیں اور اس کو لے کر بعض عناصر حکومت اور مقتدر قوتوں کے درمیاں دوریوں کی باتیں کر رہے ہیں۔

جبکہ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ عمران خان نے آرمی ایکٹ ترمیمی بل کا کٹّا کھول کر درحقیت اپنے پاوں پر خود کلہاڑی ماری ہے، بلکہ انہوں نے اپنے سابقہ بیانئے کے برعکس اگست میں جنرل باجوہ کو تمام سیاسی جماعتوں کی جائز مخالفت کی باوجود ایکس ٹنشن دینے کا اعلان کر کے اپنی سیاسی موت کو خود اپنے گلے سے لگا لیا تھا کیونکہ پاکستان کی تاریخ بھی یہی رہی ہے کہ جس نے اور جب خلافِ معمول، خلافِ ضابطہ یا سنیارٹی کو بالائے طاق رکھ کر فوجی سربراہوں کی تقرریاں کیں وہ بعد میں خود اپنے کیئے گئے فیصلوں سے ڈسے گئے اور اب خالد مقبول صدیقی کی کابینہ سے علیحدگی کو اِن ہاوس تبدیلی کے سفر کا آغاز قرار دیا جارہا ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ اقتدار کی تبدیلی کے اس نئے سفر میں پاکستان تحریکِ انصاف کے کتنے مسافر اپنی کشتی بدلتے ہیں۔

The post وفاقی حکومت اپنے اتحادیوں کے مطالبات کے دباؤ میں appeared first on ایکسپریس اردو.



source https://www.express.pk/story/1952808/1

No comments:

Post a Comment

please do not enter ant\y spam link in comment box

Post Top Ad

مینیو