اسلام آباد: افغانستان میں 2001 میں شروع ہونے والی امریکا کی طویل ترین جنگ کا بالآخر اختتام ہونے کو ہے جس کا آغاز گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد کیا گیا تھا، امریکا کی اس طویل جنگ میں افغانستان میں ہزاروں افراد کی جانیں قربان ہوئیں اور تقریباً دو ہزار سے زائد امریکی بھی مارے گئے اور اس کے ساتھ ساتھ کھربوں ڈالرز کا بھاری نقصان بھی ہوا۔
افغانستان کی اس وقت کے سخت گیر حکمران طالبان چند ہفتوں میں ہی امریکی بمباری اور قبائلی جنگوں کی وجہ سے حکومت کھو بیٹھے۔ طالبان کی حکومت کے خاتمے کے ابتدائی دنوں میں خوشی کے ساتھ اپنی شیو بنانے والے افغان مرد اور خواتین خودکش بمباری کی طویل مہم میں داخل ہوگئے، جہاں بڑی تعداد میں عام لوگ مارے گئے اور طالبان غیر ملکی افواج کو پسپا کرتے ہوئے دوبارہ عروج پانے لگے۔
القاعدہ کے ٹھکانوں کو ختم کرنے کے لیے شروع ہونے والا مشن طالبان کے خلاف ایک بڑی جنگ میں تبدیل ہوگیا اور خانہ جنگی اس قدر پھیل گئی کہ امریکی فوج اس پر قابو پانے میں ناکام ہوئی۔
اور اب صورتحال یہ بن چکی تھی کہ امریکہ کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا تھا کہ وہ افغانستان سے اپنی افواج کو واپس امریکہ بلاتا۔ دوسری جانب امریکہ پچھلے جند دنوں سے افغانستان میں اپنا دفاعی سامان بھی تباہ کر رہی ہے جو وہ افغانستان میں طالبان کے خلاف استعمال کر رہے تھے ۔
اور امریکہ خود تو نکل گیا لیکن افغانستان کو طالبان کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا طالبان اب بہت سے اہم علاقوں پر قبضہ کر چکے ہیں۔دوسری جانب چین، روس اور ایران کا افغانستان کی صورتحال اور طالبان کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی اس دوران طالبان کا ایرانی سرحد پر کنٹرول، پشتون علاقوں میں زور ایک نئی گیم کا از سر نو آغاز بھی ہے ۔
ایران میں ہونے والے مذاکرات کسی نہ کسی انڈر سٹینڈنگ کی علامت ہیں جبکہ طالبان کے لیے واحد اور پوٹینشل چیلنج داعش کی صورت موجود ہے۔ اس معاملے پر ایران اور افغان طالبان ایک صفحے پر ہیں ۔ خطے میں موجود یہ دو قوتیں کسی طور داعش کو پنپنے نہیں دیں گی جبکہ افغان طالبان کے تہران میں مذاکرات کے دوران انڈین وزیر خارجہ کی تہران آمد بہت سے پیغامات لیے ہوئے ہے۔ دوسری جانب چین، روس اور ایران افغانستان کے معاملے پر یکجا سوچ اپنائے ہوئے ہیں ۔ انڈیا چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی نئے علاقائی نقشے پر اس قدرتی اتحاد کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔
امریکہ کی نئی پیش بندی چین کے خلاف ہے تو خطے میں کون سی طاقت امریکہ کے ساتھ کھڑی ہو گی یہ بھی دیکھنا اہم ہو گا۔ یہ طے ہے کہ سب سے زیادہ جس ریاست پر بوجھ پڑے گا وہ پاکستان ہی ہے۔ پاکستان زمینی حقائق کے مطابق پالیسی ترتیب دے گا یا چند افراد کی خواہشات کو مدنظر رکھا جائے گا اس کا فیصلہ بھی جلد کرنا ہو گا اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ افغانستان کی بدلتی صورتحال نہ صرف پاکستان پر براہ راست اثرا نداز ہوگی بلکہ جنوبی ایشیاء اور باقی دنیا بھی اس سے متاثر ہوگی یہی وجہ ہے کہ بعض عالمی دفاعی و سفارتی امور کے ماہرین دنیا کو تیسری عالمی ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچنے کے خطرات کا اظہار کر رہے ہیں۔
ایک ذمہ دار ملک ہونے کے ناطے پاکستان ہمیشہ کی طرح اس بار بھی نہ صرف خطے کو بلکہ پوری دنیا اور انسانیت کو تیسری عالمی ایٹمی جنگ کی تباہی سے بچانے کیلئے کردار ادا کرنے کیلئے کوشاں ہے، یہی وجہ ہے کہ ملک کی سیاسی و عسکری قیادت عالمی دنیا کے ساتھ رابطوں میں ہے اور عالمی برادری کو انسانیت کی بقاء و بھلائی کیلئے خطے میں طاقت کے بگڑتے ہوئے توازن کے خطرات سے آگاہ کر رہی ہے، پاکستان اس وقت کافی متحرک ہے اور نا صرف دوست ممالک سے بلکہ دنیا بھر سے اس حوالے سے سفارتی کاری کر رہا ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی مسلسل دورے کر رہے ہیں اور وزیراعظم عمران خان بھی ایران سمیت دوسرے ہمسایہ ممالک اور عالمی رہنماوں سے رابطے کر رہے ہیں چونکہ یہ بہت اہم اور بہت نازک ایشو ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکہ نے جو اس میں جلد بازی دکھائی ہے وہ نئی گیم پلان کی ایک کڑی تھی اور لگ یہ رہا ہے کہ اپنی عالمی بالادستی کیلئے سب سے بڑے خطرے چین کو روکنے کیلئے بھارت پر کی جانے والی سرمایہ کاری سے خاطر خواہ نتائج حاصل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے امریکہ اب پینترہ بدلنے جا رہا ہے اور بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکہ اب چین کی راہ روکنے کیلئے طالبان کو بطور خاص ان طالبان کو جو پچھلے کئی سال سے افغانستان میں امریکہ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہے ہیں انہیں چین کے خلاف استعمال کرے گا اورخطے میں شورش کا دائرہ کار چین تک بڑھانے کی کوشش کرے گا، خاص کر چین کے مسلم اکثریتی صوبوں میں جہاد کے نام پر نیا کھیل کھیلنے کی کوشش کی جائے گی کیونکہ اب نہ صرف عالمی سطح پر سفارتی و دفاعی محاذ پر نئی صف بندی حتمی مرحلے میں داخل ہو چکی ہے بلکہ اقتصادی میدان میں بھی نئے بلاک بننے جا رہے ہیں۔
ایک جانب چین اقتصادی قوت کے طور پر عالمی سطح پر اپنا سکہ جما رہا ہے تو دوسری جانب ترکی،ملائشیاء اور روس بھی اقتصادی طور پر مضبوط ہوئے ہیں اور نئی کرنسی سویپ و مشترکہ کرنسی متعارف کروانے کے معاہدے ہونے جا رہے ہیں، علاقائی تجارت فروغ پا رہپی ہے اور پھر سی پیک جو اگلے مرحلے میں داخل ہونے جا رہا ہے اس میں ایران بھی شامل ہو رہا ہے اور تو اور انڈیا بھی اس کا خواہاں ہے اور انڈیا بھی اس حوالے سے معاہدے کر چکا ہے جو کسی طور پر امریکی مفاد میں نہیں ہے، اس لئے کہا جا رہا ہے کہ آگے بہت کچھ انہونا ہونے جا رہا ہے اور اس کیلئے بعض ماہرین سالوں قبل معروف فرانسیسی ماہر علم نجوم نوسٹراڈیمس کی جانب سے کی جانیولای پیشنگیوئیوں کو بھی غیر معمولی اہمیت دے رہے ہیں۔
انکا خیال ہے کہ فرانسیسی ماہر علم نجوم نوسٹراڈیمس نے 2021 بارے میں بھی کچھ بہت خوفناک پیش گوئیاں کی تھیں جن میںتیسری عالمی جنگ چھڑنا اور تباہ کن زلزلوں کا آنا شامل ہیں اور نوسٹراڈیمس کی پیش گوئیوں کے مطابق اس دنیا کا خاتمہ 3793 میں ہو گا اور یہ ہماری اس دنیا کا آخری سال ہو گا۔
نوسٹراڈیمس کا کہنا تھا کہ ’’اس سال آخری آتشزدگی (Final Conflagration) ہو گی اور یہ دنیا ختم ہو جائے گی اور نوسٹراڈیمس کی پیش گوئیوں کے برطانوی ماہر بوبی شیلر کا کہنا ہے کہ ’’نوسٹراڈیمس نے آئندہ سالوں میں شمسی طوفان کی پیش گوئی بھی کر رکھی ہے، اور جو ہماری زمین کے برقی نظام کو تباہ و برباد کر دے گا اور دنیا کا کمیونی کیشن کا تمام تر نظام ناکارہ ہو جائے گا اور بجلی بند ہو جائے گی اور بیشتر دنیا تاریکی میں ڈوب جائے گی۔ اس کے علاوہ نوسٹراڈیمس نے یہ پیش گوئی بھی کی ہے ییلو سٹون نیشنل پارک میں آتش فشاں پھٹے گا جو بڑے پیمانے پر تباہی کا سبب بنے گا، یہ وہ پیشنگوئیاں ہیں جو عالمی میڈیا اور سوشل میڈیا پر موضوع بحث بنی ہوئی ہیں اور حالات جس رخ جا رہے ہیںاس سے ان پیشنگوئیوں بارے عوامی پذیرائی بڑھتی جا رہی ہے۔
دوسری جانب داخلی سطح پر بھی ملک کو درپیش چیلنجز بڑھتے جا رہے ہیں ویسے تو جب سے ملک معرض وجود میں آیا ہے تب سے ہپر وقت ملک نازک دور سے ہی گزر رہا ہوتا ہے اور سیاسی و معاشی عدم استحکام تو جیسے ہمارے نصیب میں لکھے گئے ہوں سیاسی اور معاشی حالات کچھ بہتری کی جانب گارمزن ہوتے ہیں ہم ایشئین ٹائگر بننے جا رہے ہوتے ہیں کہ اچانک سے ایسے اسپیڈ بریکرز اوریوٹرن آتے ہیں کہ حالات کھینچی ہوئی ربڑ کی مانند واپس پرانی پوزیشن پر چلے جاتے ہیں اور پھر سے وہی پسماندگی، غربت، بے روزگاری اور اقتصادی بدحالی کا منحوس چکر شروع ہو جاتا ہے جس سے نکلنے کیلئے پھر سے کسی آئی ایم ایف اور عالمی بینک کا سہارا لینا پڑتا ہے جس سے عارضی طور پر معاشی ترقی کی جانب گامزن ہوتے ہیں۔
معلوم ہوتا ہے درحقیقت ریورس گیئر لگ چکا ہوتا ہے اور بیرونی امداد اور قرضوں سے کہیں زیادہ ملک کے داخلی معاملات میں بیرونی مداخلت جڑین بنا چکی ہوتی ہے جسکا عملی نمونہ آج دنیا کے سامنے ہے، ہماری اہم اقتصادی پالیسیوں سمیت داخلی و خارجی سطح پر بہت سے اہم معاملات ان بیرونی قوتوں کے مرہون منت ہیں اور جہاں کہیں ہم ڈٹ جاتے ہیں وہاں ہمیں توڑنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جاتا ہے اور آئی ایم ایف ، عالمی بینک فیٹف سمیت اس طرح کے بہت سے آرم ٹوئسٹنگ ٹولز کو استعمال میں لاتے ہوئے ہمارے بازو مروڑنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ہم ہیں کہ سیاست اور اقتدار کی غلام گردشوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔
The post عالمی سطح پر تیزی سے بدلتا منظر نامہ ٹھوس حکمت عملی کا متقاضی appeared first on ایکسپریس اردو.
source https://www.express.pk/story/2201727/1
No comments:
Post a Comment
please do not enter ant\y spam link in comment box