تازہ ترین

Post Top Ad

Adstera 2

Saturday, 6 January 2024

تاج محل کو تین بار بیچنے والا ٹھگ نٹور لال!

کیا کوئی تاج محل کو بیچ سکتا ہے؟ سوال حیران کن ہے مگر مشہور بھارتی ٹھگ نٹور لال نے اسے ایک دو نہیں بلکہ تین بار بیچا تھا!

جی ہاں! سرکاری افسر بن کر غیر ملکیوں کو اپنی جعل سازی سے ٹھگ نٹور لال تین بار تاج محل جیسی عظیم یادگار کو بیچ چکے ہیں۔ ان کی زندگی کی داستان میں وہ بات رہی ہے کہ بالی وڈ میں بھی کئی بار ان پر فلمیں بنائی گئیں۔

دھوکے سے لوگوں کے لوٹنے والے نٹور بھارت کا ایسا کردار ہیں جو بہت سی کہانیوں کا موضوع بنے۔ غریب انھیں رابن ہُڈ کہتے تھے مگر امیر لوگ اور سرکار تاریخ کا معروف ترین جعل ساز قرار دیتے ہیں۔ بقول نٹور کے گاؤں والوں کے وہ ’غریبوں کی مدد کرنے والے‘ تھے۔

ان کی زندگی پر بنی فلم میں میگا اسٹار امیتابھ بچن نے بھی کام کیا۔ ماضی قریب میں ان پر بنائی گئی فلم میں عمران ہاشمی نے مرکزی کردار ادا کیا تھا جبکہ پاکستانی اداکارہ حمائمہ ملک نے بھی اس میں اپنے جلوے بکھیرے تھے۔

نٹور لال نے ’ٹھگنے‘ کے فن کو اس کمال درجے تک پہنچایا کہ تاج محل کے علاوہ ایوانِ صدر، پارلیمنٹ ہاؤس اور ملک کی اہم عمارات تک کو فروخت کردیا۔ تاہم خریدنے والوں کے ہاتھ حسرت کے سوا کچھ نہ آسکا!

وکٹر لسٹنگ نامی شخص نے یرس کے مشہور زمانہ ایفل ٹاور کو دو بار بیچا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ نٹور لال نے خود کو سرکاری افسر ظاہر کرتے ہوئے تاج محل کو ایک دو بار نہیں بلکہ تین بار غیر ملکیوں کے ہاتھوں فروخت کرڈالا۔

جب نٹور نے تاج محل کو فروخت کیا:

سرکاری دستاویز بنانا نٹور لال جیسے شخص کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا، اپنی اس مہارت کا اظہار انھوں نے مشہور زمانہ تاج محل فروخت کرکے کیا۔ نٹور نے باریک بینی سے ایسی دستاویز بنائیں جس میں تاج محل کے حوالے سے تمام کاغذات موجود تھے۔

ٹھگ نٹور لال نے جعل سازی کی انتہا کرتے ہوئے تین مرتبہ تاج محل کو غیر ملکیوں کے ہاتھوں بیچ ڈالا۔ ان کی اس کام میں مہارت ایسی تھی کہ پولیس کے ہاتھ کبھی ان کے خلاف کوئی ثبوت نہ لگا۔

انھوں نے تاج محل کو تین بار، لال قلعہ کو دو بار، راشٹرپتی بھون یعنی ایوان صدر کو ایک بار اور انڈین پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ اس کے 545 ارکان کو انڈیا کے صدر راجندر پرساد کے فرضی دستخط نقل کر کے غیر ملکیوں کے ہاتھوں بیچ دیا۔

ان کے خلاف 100 سے زیادہ مقدمات بنے اور وہ بھارت کی 8 ریاستوں میں پولیس کی مطلوب شخصیت تھے۔ ریاست بہار کی عدالت نے انھیں 17 برس، سنگھ بھوم کی عدالت نے 19 برس کی سزا سنائی جبکہ پٹنہ کے جج نے انھیں عمر قید کی سزا سنائی۔ ان کی مجموعی سزا 113 سال بنتی ہے۔

پیدائش سے لے کر مشہور شخصیات کو ٹھگنے کے دیگر واقعات:

مشہور ٹھگ کا پیدائشی نام متھلیش کمار سریواستو تھا اور وہ بھارت کی شمالی ریاست بہار کے ضلع سیوان کے بانگڑا گاؤں میں 1913 میں پیدا ہوئے جبکہ کچھ لوگ ان کی پیدائش کا سن 1912 بھی بتاتے ہیں۔

شروع میں وہ اپنی جعل سازی کی مہارت سے بے خبر تھے۔ اپنی بےمثال مہارت کا نٹور لال کو اس وقت ادراک ہوا جب انھوں نے اپنے پڑوسی کے جعلی دستخط کیے، جو انھیں اکثر اپنے بینک ڈرافٹ جمع کروانے کے لیے بینک بھیجتا تھا۔

اس وقت بینک سے پیسے نکالنے کے لیے صرف بینک اکاؤنٹ ہولڈر کے دستخط کی ضرورت تھی اور پھر انھوں نے اپنی ٹھگی کا آغاز کرتے ہوئے پڑوسی کے 1000 روپے بینک سے نکال لیے۔

پڑوسی کو علم ہونے تک نٹور لال بہار سے 1000 روپے لے کر کولکتہ کے لیے فرار ہو چکے تھے۔ یہاں انھوں نے کپڑوں کے کاروبار میں قسمت آزمائی کی تاہم کامیاب نہ سکے۔ اس کے بعد انھوں نے جعلی دستاویزات کا استعمال کرتے ہوئے حکومت کا 9 ٹن لوہا بیچ ڈالا۔

مغربی بنگال کی پولیس نے انھیں دھر لیا اور انھیں چھ ماہ کی قید ہوگئی، رہا ہونے کے بعد وہ طوائفوں کے پیچھے پڑے۔ وہ انھیں ایک ایسی نشہ آور چیز فروخت کیا کرتے تھے جسے ’طوائف زہر‘ کے نام سے جانا گيا۔

پولیس کے مطابق نٹور طوائفوں کو منشیات کا عادی بناتے تھے اور آخر میں ان کے پیسے لے کر فرار ہو جاتے تھے۔ اس کے بعد وہ ریلوے میں ملازمت کرنے لگے اور جعلی سرکاری دستاویزات، ریلیز آرڈرز اور سامان کو غائب کرنے کے لیے چیک جاری کرتے رہے۔

1940 کی دہائی میں وہ اپنی جعل سازی سے کافی مشہور ہوگئے۔ انھوں نے کپڑے کے لین دین میں زبردست ہیراپھیری کی اور اخباروں میں انھیں ’ٹیکسٹائل کننگ‘ کا نام دیا گيا، اسی دور میں متھلیش کمار کی عرفیت ’نٹور لال‘ ہوگئی۔

بھارت آزاد ہوا تو نٹور کے پر پرزے مزید کھل کر سامنے آئے، پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں ان کی جعل سازی عروج کو پہنچ گئی۔ 1957 میں نٹور لال نے جب کانپور جیل سے راہِ فرار اختیار کی تو یہ انڈیا کی تاریخ میں جیل توڑنے کا مقبول ترین واقعہ بن گیا۔

جب راجیو گاندھی کی حکومت تھی تو انھوں نے وزیر خزانہ نارائن دت تیواری کا اسسٹنٹ بن کر دلی کے تاجرکو لوٹا۔ تاجر کو فرضی چیک تھما کر غیرملکی مہمانوں کو تحفے دینے کے نام پر93 قیمتی گھڑیاں لے اڑے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دوران نٹور لال اپنی تعلیم قابلیت بھی بڑھاتے رہے اور بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے علاوہ وکالت کی ڈگری بھی حاصل کی۔

دراصل وہ شاید جعل سازمیں اپنی قابلیت بڑھانا چاہتے تھے اور اسی بنا پر انھوں نے سرکاری دستاویزات کی جعل سازی کرتے ہوئے سینکڑوں دکانداروں، جوہریوں، بینکاروں اور بیرون ملک سے آئے افراد کو لوٹا۔

جمہوریہ بھارت کے پہلے صدر راجندر پرساد، معروف صنعت کار ٹاٹا اور دھیرو بھائی امبانی جیسی شخصیات بھی ان کی جعل سازی سے نہ بچ سکیں اور ان کے دام میں پھنس گئیں۔ نٹورلال نے ان کے دستخطوں میں بھی مہارت حاصل کی۔ 50 کی دہائی کے اوائل تک ان کی جعل سازی کی داستانیں اخباروں کی زینت بننے لگی تھیں۔

وہ اکثر جیل جانے کے بعد بھی فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتے تھے اور پھر اخباروں کی سُرخیاں جہاں لوگوں میں سنسنی پیدا کرتیں وہیں پولیس کی ناکامی کا اشتہار بھی ہوتی تھیں۔

اپنی مہارت کی بنا پر وہ 84 برس کی عمر میں 1996 میں بھی جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ٹانگوں سے معذور ہونے کی وجہ سے پولیس انھیں علاج کے لیے مشہور اسپتال ایمس لے جا رہی تھی لیکن وہ ایک بار پھر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے اور دوبارہ کبھی نظر نہیں آئے۔

دھوکہ دہی کے فن میں مہارت کے باعث بالی وڈ نے ان پر تین فلمیں بنائیں، دو فلمیں تو ان کے نام پر ہی بنائی گئیں۔ 1979 میں ریلیز ہونے والی فلم ’مسٹر نٹور لال‘ میں تو امیتابھ بچن نے ان کے کردار کو نبھایا۔

ماضی قریب یعنی 2014 میں فلم ’راجا نٹور لال‘ ریلیز ہوئ جس میں عمران ہاشمی نے ان کا کردار ادا کیا۔ اس فلم کا مکالمہ نٹور لال کی زندگی کی بھرپور عکاسی کرتا ہے کہ ’میں پیدائشی 420 ہوں!‘

ایسی ہی ایک اور فلم ’بنٹی اور ببلی‘ بھی اُن سے متاثر ہو کر بنائی گئی۔ اس فلم میں امیتابھ کے بیٹے ابھیشیک بچن نے نٹور لال کا کردار ادا کیا تھا۔

ان کے گاؤں کے لوگ ان کی کافی عزت کرتے ہیں نیوز چینل ’آج تک‘ نے 2009 میں جب ان کے گاؤں کا دورہ کیا تو ایک رپورٹر بار بار نٹور لال کہہ رہا تھا جس پر مقامی افراد ناراض ہو گئے اور سخت لہجے میں اُنہیں نام سے پہلے مسٹر لگانے کی تاکید کی۔

ان کے گاؤں والے انٹور کو رابن ہُڈ کی طرح سمجھتے ہیں اور خواہشمند ہیں کہ ان کا مجسمہ نصب کیا جائے۔ 2009 میں نٹور لال دوبارہ میڈیا کی زینت بنے۔ اس وقت اُن کے وکیل نے اُن کی موت کے بعد اُن کے سارے مقدمات کو بند کرنے کی درخواست کی تھی۔

وکیل کے مطابق نٹور 25 جولائی 2009 کو اس دار فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ اس کے برعکس نٹور کے بھائی کا کہنا تھا کہ 1996 میں رانچی میں انھوں نے اپنے بھائی کی آخری رسومات ادا کی تھیں۔‘ تاہم حقیقت یہ ہے کہ مشہور ٹھگ کی زندگی اور موت دنوں ہی ایک راز ہیں۔



from ARYNews.tv | Urdu – Har Lamha Bakhabar https://ift.tt/TdioapZ
via IFTTT

No comments:

Post a Comment

please do not enter ant\y spam link in comment box

Post Top Ad

مینیو