تازہ ترین

Post Top Ad

Adstera 2

Tuesday, 3 November 2020

امریکی صدارتی انتخاب: ٹرمپ کی فتح کے امکانات روشن

 واشنگٹن: امریکا میں 59 ویں صدارتی انتخاب کےلیے ووٹنگ مکمل ہوجانے کے بعد ووٹوں کی گنتی شروع ہوچکی ہے۔ حالیہ امریکی صدارتی انتخاب میں ری پبلکن پارٹی کے امیدوار اور موجودہ امریکی صدر، 74 سالہ ڈونلڈ ٹرمپ اور 77 سالہ ڈیمو کریٹ امیدوار جو بائیڈن میں کانٹے کا مقابلہ جاری ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ چند گھنٹے پہلے تک صرف 118 الیکٹورل ووٹس حاصل کرسکے تھے لیکن اب وہ 212 الیکٹورل ووٹس حاصل کرچکے ہیں۔ اس طرح وہ 223 الیکٹورل ووٹس کے ساتھ سبقت رکھنے والے امیدوار جو بائیڈن کی انتخابی برتری کم کرتے جارہے ہیں۔

واضح رہے کہ امریکا میں مجموعی طور پر 538 الیکٹورل ووٹس ہیں جن میں سے 270 یا زیادہ الیکٹورل ووٹس حاصل کرنے والا امیدوار فاتح قرار دیا جاتا ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، الیکٹورل ووٹس کے اعتبار سے اگرچہ بائیڈن کو برتری حاصل ہے لیکن اگر عوامی ووٹوں کی بنیاد پر دیکھا جائے تو بائیڈن اور ٹرمپ کو حاصل ہونے والے ووٹوں کی تعداد میں صرف ایک فیصد کا فرق ہے۔

سرِدست امریکی صدارتی انتخاب میں کسی بھی امیدوار کی فیصلہ کن فتح کا انحصار ’’سوئنگ اسٹیٹس‘‘ پر ہے، جن میں سے بیشتر کے حتمی نتائج ابھی تک موصول نہیں ہوئے ہیں تاہم ایگزٹ پول سے پتا چلتا ہے کہ 168 الیکٹورل ووٹس والی ان امریکی ریاستوں میں ٹرمپ کو برتری حاصل ہے جو اگلے چند گھنٹوں کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح میں بھی تبدیل ہوسکتی ہے۔

جوبائیڈن کی برتری اور ٹرمپ کی خواہش 

ایگزٹ پولز کے مطابق جوبائیڈن کو امریکی صدر پر برتری حاصل ہے۔ دونوں رہنماؤں کی جیت کے لیے سوئنگ اسٹیٹس خصوصی طور پر پنسلوانیا، فلوریڈا، مشی گن اور جنوبی کیرولینا کی طرف نظریں جمی ہوئی ہیں۔ جوبائیڈن نیو ہیمپشائر کے ایک چھوٹے سے گاؤں جس کی کل آبادی پانچ ہے، سے کامیاب ہو گئے ہیں۔

دوسری جانب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خواہش ہے کہ وہ جارج بش سینئر کی طرح صرف ایک دور کے لیے صدر بننے والے آخری امریکی صدر کا ریکارڈ نہ توڑدیں۔ 10 کروڑ 90 لاکھ کے قریب افراد صدارتی انتخاب میں پہلے ہی ووٹ کاسٹ کرچکے ہیں۔

یہ پڑھیے:  صدارتی الیکشن میں درست پیشگوئی کرنے والے امریکی پروفیسر نے ٹرمپ کی شکست بتادی 

گزشتہ صدارتی انتخاب میں ٹرن آؤٹ 58.1 فیصد تھا جبکہ اس مرتبہ امید ہے کہ یہ 60 فیصد کے آس پاس ہوسکتا ہے، اگر اتنی تعداد میں امریکی عوام ووٹ دیں گے تو یہ ممکنہ طور پر ایک صدی میں سب سے بڑی تعداد ہوگی۔

انتخابی نتائج میں ریاستوں کا کردار 

امریکا صدارتی انتخابات میں ریاستوں کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔ امریکا میں دو بڑی سیاسی جماعتیں ڈیمو کریٹک اور ری پبلکن پارٹی انتخابی میدان میں مدمقابل ہوتی ہیں۔  جس پارٹی کے ریاست میں زیادہ ووٹ ہوتے ہیں اس ریاست کو اسی پارٹی کے رنگ سے منسوب کیا جاتا ہے اسی لیے ڈیموکریٹ کی حامی ریاستیں بلیو اور ری پبلکن کی حامی ریاستیں ریڈ اسٹیٹس کہلاتی ہیں۔

الباما، آرکنساس، اڈاہو، انڈیانا، کینٹکی، لوزیانا، مسیسپی، نبراسکا، شمالی ڈکوٹا، اوکلاہوما، جنوبی کیرولائنا، جنوبی ڈکوٹا، ٹینیسی، یوٹا، مغربی ورجینیا، ویئومنگ، الاسکا، کنساس، مسوری، مونٹانہ اور ٹیکساس ریڈ اسٹیٹس ہیں۔

متعلقہ لنک: امریکا کے صدارتی انتخابات، کئی انہونیاں ہوسکتی ہیں 

کیلی فورنیا، کولوراڈو، کنیکٹی کٹ، ڈیلاویئر، ہوائی، الینوائے، مین، میری لینڈ، میسا چیوسیٹس، نیو جرسی، نیو میکسیکو، نیویارک، اوریگن، روڈ آئی لینڈ، ورمونٹ، ورجینیا، واشنگٹن، ایریزونا، مشی گن، منیسوٹا، نیواڈا، نیو ہیمپشائیر، پینسلوینیا اور وسکونسن کا شمار بلیو اسٹیٹس میں کیا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ صدرٹرمپ یا جوبائیڈن کو صدارت سنبھالنے کے لیے 538 میں سے 270 الیکٹورل ووٹس کی ضرورت ہے، پولنگ کے مکمل نتائج آنے اور ان کے حتمی سرکاری اعلان کے لیے رواں سال 14 دسمبر کی تاریخ رکھی گئی ہے۔

The post امریکی صدارتی انتخاب: ٹرمپ کی فتح کے امکانات روشن appeared first on ایکسپریس اردو.



source https://www.express.pk/story/2101055/10

No comments:

Post a Comment

please do not enter ant\y spam link in comment box

Post Top Ad

مینیو