جسم میں لگنے والی چوٹ یا اندرونی نظام میں خرابی کے باعث اٹھنے والا درد ہم کیسے محسوس کرتے ہیں یا اسے ختم کرنے کیلئے کیا اقدامات کیے جاسکتے ہیں؟
درد اللہ کی طرف سے دی ہوئی ایک نعمت ہے، ویسے تو درد اس ناخوشگوار احساس کا نام ہے، جس سے ہم سب واقف ہیں مگر یہ احساس پیدا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی اہم وجہ ڈاکٹر خالد جمیل اختر نے ایک انٹرویو کے دوران اپنی گفتگو میں بتائی۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی درد کی شدت کو کم یا زیادہ کرنے میں دماغ کا بہت بڑا دخل ہے کیونکہ قدرت نے ہماری قوت مدافعت میں ایک ایسا سیل بھی رکھا ہے جس کو انگریزی میں ’ریسیپٹر‘ کہتے ہیں جو درد کے احساس کا پیغام دماغ کو دیتا ہے جس کے بعد ہمیں درد کا باقاعدہ احساس ہوتا ہے جو کہ انتہائی ضروری ہے۔
اگر انسان کے اندر ایسے خلیات موجود نہ ہو تو چاہے اس کی ٹانگ ہی کیوں نہ ٹوٹ جائے اسے درد محسوس ہی نہیں ہوگا۔ ہر درد کا اپنا الگ تاثر ہوتا ہے اور کچھ ایسی بیماریاں بھی ہوتی ہیں جن میں درد کا احساس نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر خالد جمیل کا کہنا تھا کہ درد کے دوران اگر اس سے بھی بڑا کوئی کام یا ایسی خبر مل جائے تو آپ کا ذہن کو ملنے والے درد کے سگنلز پیچھے رہ جاتے ہیں اور آپ کے درد کی شدت خود بخود کم ہوجاتی ہے۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ہم جسم کے کسی درد والے حصے پر آیو ڈیکس یا اس ٹائپ کی کریم لگاتے ہیں تو لگتا ہے درد کم ہوگا لیکن ایسا نہیں ہے حقیقت میں ہوتا ایسا ہے کہ کریم لگانے سے جو تیز ٹھنڈک یا مرچیں لگتی ہیں اس کا پیغام بھی ذہن تک پہنچتا ہے جو پہلے والے درد کو کم کردیتا ہے۔
اس لیے درد کم ادویات یہی کام کرتی ہیں وہ یا تو درد کی رفتار کو کم کردیتی ہیں یا پھر دماغ میں پیدا ہونے والے تاثر کو کم کردیتی ہیں جس سے ہمیں لگتا ہے کہ درد کم ہوگیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری زندگی بھی اسی طرح چلتی ہے کسی کا چھبتا ہوا جملہ ہمارے درد کو بڑھا سکتا ہے اور کسی کی میٹھی بات ہمارے درد کو کم کرسکتی ہے۔
from ARYNews.tv | Urdu – Har Lamha Bakhabar https://ift.tt/FHqKyRZ
via IFTTT
No comments:
Post a Comment
please do not enter ant\y spam link in comment box